مس ورلڈ کی حسینائیں حیدرآباد میں۔ خوبصورتی، تہذیب اور ثقافت کا حسین امتزاج
Miss World beauties in Hyderabad – a beautiful blend of elegance, grace, and culture.

حیدرآباد، جو کبھی قطب شاہی سلطنت کا مرکز رہا اور جہاں کی گلیاں، محلات اور بازار آج بھی تاریخ کی سرگوشیاں سناتے ہیں، اِن دنوں ایک نئے رنگ و نور میں نہا رہا ہے۔ عالمی شہرت یافتہ مس ورلڈ مقابلہ میں حصہ لینے والی حسینائیں اس شہرِ پُر نورکی مہمان بنی ہوئی ہیں۔ ان کے قدموں سے حیدرآباد کی خاک جیسے مہکنے لگی ہے، اور اس کی فضائیں جیسے خوشبو سے معطرہو چکی ہیں۔یہ وہ حسینائیں ہیں جن کے چہروں پر حسنِ فطرت کی جھلک ہے، اور جن کی مسکراہٹ میں سورج کی کرنوں جیسی تمازت اور چاندنی جیسی لطافت پائی جاتی ہے۔ ان کی آنکھوں میں ستاروں کی سی چمک ہے اور ان کے لبوں پر وہ تبسم سجا ہے جو انسانیت اور امن کا پیغام دیتا ہے۔اس حسین امتزاج نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ خوبصورتی صرف چہرے کا نام نہیں، بلکہ یہ علم، تہذیب، ہنر، محبت اور احترام کا مرکب،مرکز، منبع اورمحور ہے اور حیدرآبا دشہران تمام صفات کا ایک زندہ اور دلنواز مظہر ہے۔ دنیا کے مختلف گوشوں سے آئی ہوئی حسیناؤں کا قافلہ، جب دکن کی سرزمین پر اترا، تو یوں محسوس ہوا گویا ماہتاب نے چارمینار کے گنبدوں کو اپنی روشنی سے نہلا دیا ہو۔ مس ورلڈ 2025 کی شریک حسینائیں اس بار محض مقابلہ حسن میں شرکت کو نہیں، بلکہ تہذیبی رشتوں کی گانٹھ باندھنے کو حیدرآباد پہنچی ہیں۔یہ محض ایک شوخ لمحہ نہیں ہے بلکہ حیدرآباد کے لئے ایک تاریخی گھڑی ہے جہاں حسن، فن، تہذیب اور روایت، چار دیواری سے نکل کر عوامی بزم میں جلوہ گر ہوئے۔ارض دکن جو ہندوستان کی پیشانی کا جھومر ہے یہاں پر جب سنہری زلفوں اور مہرباں آنکھوں والی حسینائیں روایتی انداز میں جلوہ گر ہوئیں تو تاریخ نے بھی پلٹ کر دیکھا اور مسکرا کر کہا]؟[یہ حسن، محض جسمانی نہیں، بلکہ تہذیب کی ترجمانی ہے۔]؟[ شہرحیدرآباد گویا کوئی قصیدہ ہے، جسے ہر موڑ پر نئی بحر میں پڑھا جاتا ہے۔ان حسیناوں کا لمس، ان کے قدموں کی چاپ، مٹی کی خاموشی میں جابجا گونج بن کر اتر گئی۔ مس ورلڈ محض جلوہ آرائی نہیں، بلکہ سماجی شعور کا ایک عالمی پلیٹ فارم ہے۔ شریک حسیناؤں نے کہا]؟[ہم یہاں صرف تاج کے لیے نہیں آئے، بلکہ سیکھنے اور جڑنے آئے ہیں۔]؟[یہ جملہ، حیدرآباد کی روح سے گہری مطابقت رکھتا ہے ایک ایسا شہر جو ہر اجنبی کو اپنا بناتا ہے۔یہ حسینائیں جب اپنی یادوں کا سمندر اپنے دلوں میں سمیٹے واپس روانہ ہوں گی، تو ان کے ساتھ حیدرآباد کی مسکراہٹ، مہمان نوازی اور تہذیبی لمس بھی رخصت ہوگا۔ان کا یہ شدید احساس ہوگا کہ یہ دورہ شائد چند دنوں کا تھا، مگر اس کے اثرات وقت کے سینے پر ہمیشہ کے لیے کندہ ہو چکے ہیں۔ حیدرآباد نے دنیا کو ایک بار پھر بتایا کہ وہ صرف تاریخ کی ورق گردانی نہیں، بلکہ حسن، علم، ہنر اور دل کی دھڑکن ہے۔